Sunday, 14 December 2014

میں تنہائی کا حاصل ہو گیا ہوں

میں تنہائی کا حاصل ہو گیا ہوں
بھری دُنیا میں شامل ہوگیا ہوں
اُسے آساں سمجھ لینے کی دُھن میں
میں اپنے آپ مشکل ہوگیا ہوں
بہت پتّھر بنا ہُوں ٹوٹنے کو
مگر اِک چوٹ سے"دل" ہو گیا ہُوں
میری فطرت رہی ہے قتل ہونا
مگر مشہور "قاتل" ہو گیا ہُوں
غبارِ ہمسفر کے ساتھ رہ کر
پسِ محرابِ منزل ہو گیا ہُوں
مجھے دریا سے مِلنے کی ہوس تھی
بکھر کر ریگِ ساحل ہو گیا ہُوں
کہا کل چاند نے بنجر زمیں سے
میں آبادی کے قابل ہو گیا ہُوں
ضروری تھا میرا محسنؔ سے مِلنا
میں خُود رَستے میں حائل ہو گیا ہُوں

No comments:

Post a Comment